چند ہفتے پہلے سوشل میڈیا پر ایک مہم چلی جس میں پولیس کے سپاہیوں سے لے کے افسران تک ہر کوئی آئی جی پنجاب پولیس جناب عثمان انور کی تصویر کو اپنی ڈی پی پہ لگائے ہوئے تھا۔ میں صاحب سے کبھی ملا نہیں ہوں اور نہ ہی ملاقات کا کوئی امکان ہے لیکن عثمان انور صاحب کے پولیس کی کمان سنبھالتے ہوئے محکمہ میں جیسے ایک جان سی آگئی ہے۔ ایک سپاہی سے لے کے افسران تک سب دھرتی کی محبت میں سرشار اپنے فرائض دلجمعی سے ادا کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ عثمان انور صاحب جس طرح پنجاب کے عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے ہر وقت متحرک رہتے ہیں ویسے ہی آپ پولیس فورس کی بہتری کے لیے نہ صرف انقلابی سوچ رکھتے ہیں بلکہ بہت سے عملی اقدامات سے ایسا کر کے دکھا بھی رہے ہیں ۔ کئی سال پہلے ’نوائے وقت‘ کے انھی صفحات پر میں نے پولیس کی ذمہ داریاں اور مجبوریوں پہ ایک کالم لکھا تو بہت سے لوگوں کو نے تنقید کی اور بہت سے انجان پولیس والوں نے شکریے کے پیغام بھیجے کہ چلو کسی نے پولیس کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ مجبوریوں پہ بھی بات کی۔مجھے بھی اکثر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم دوسروں کے خامیاں تلاش کرنے والی آنکھ تو ہر وقت کھولی ہوتی ہے لیکن دوسروں کے اچھے کام دیکھتے ہوئے ہماری آنکھوں میں جالا آجاتا ہے۔ جس طرح ہر محکمے اور ادارے میں اچھے برے لوگ موجود ہیں بالکل ویسے ہی پولیس بھی ایک ایسا ہی محکمہ ہے جس میں کسی بھی دوسرے محکمے کی طرح اچھے برے دونوں طرح لوگ موجود ہیں۔ خیر بات موجودہ آئی جی صاحب کی ہی کرلیتے ہیں۔ چند دن پہلے ایک ترقی پانے والے پولیس والے سے بات ہوئی تو اس نے بتایا، آئی جی صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ بڑے انسان ہیں۔ ہر کسی کو عزت و احترام دینے والے افسر، اے ایس آئی بننے والوں تک کو گلے سے لگانے والے اور دعائیں دینے والے، ساتھ عوام کی بھلائی کے لیے بہتر خدمات سرانجام دینے کی بات کرنے والے۔ کچھ عرصہ پہلے میانوالی میں ایک تھانہ پر دہشت گردوں کا حملہ پولیس نے پسپا کر دیا۔ عثمان انور صاحب وہاں پہنچ گئے۔ ایک ویڈیومنظر عام ہوئی جس میں آئی جی صاحب ایس ایچ او کے ہاتھ پر ہاتھ مار رہے ہیں اور ایک اہلکار کو توعثمان انورصاحب نے تین دفعہ ماتھے پر بوسہ دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ڈاکٹر عثمان انور کے ذہن میں پولیس فورس کے لیے بہت کچھ بہتر کرنے کا جذبہ اور خیالات موجود ہیں ۔اسی لیے آپ زیادہ وقت عملی طور پر میدان میں مصروف نظر آتے ہیں۔ میٹنگز کرتے ہیں، تجاویز لیتے ہیں، فالو اپ اور حکم دیتے نظر آتے ہیں۔سنا ہے آئی جی صاحب میٹنگز کے لیے کسی بھی کمرے میں خود ہی چلے جاتے ہیں اور وہیں بیٹھ کے متعلقہ لوگوں سے گفتگو کرلیتے ہیں۔ جناب ہر وقت پولیس کے جوانوں کا حوصلہ بلند کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ کبھی خبر آتی کہ شہداء فنڈ میں اضافہ کر دیا گیا ہے تو دوسرے دن خبر ملتی کہ غازیوں اور دوران سروس فوت ہونے والے ملازمین کے فنڈز میں سو گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ پھر پتا چلتا ہے کہ میڈیکل الاؤنس تین کروڑ سے 63 کروڑ روپے کر دیا گیا۔ جہاں انعام کی مد میں 10 کروڑ روپے مختص کیے گئے وہیں کاسٹ آف انویسٹی گیشن میں 100 گنا اضافہ کیا گیا۔ پولیس کے غازی جو عوام کی جان و مال کی حفاظت کرتے ہوئے مستقل معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں، نہ نوکری چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی کام کرنے کے قابل ہیں۔ پنجاب پولیس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غازیوں کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی اور جہاں کبھی آئی جی صاحب کی گاڑی کھڑی ہوتی تھی اس جگہ کو شہداء اور غازیوں کی تصاویر اور کارناموں کے لیے مختص کر دیاگیا ہے۔ بہادر اتنے ہیں کہ کچے کے علاقہ میں نہ صرف اپنی فورس کے ساتھ موجود رہے بلکہ فرنٹ سے لیڈ کیا۔ اب غور کریں کہ جس فورس کا سپہ سالار اگلی صفحوں میں موجود ہو تو اس فورس کے جوانوں کا جذبہ کیا ہوگا۔ آئی جی پنجاب کو براہِ راست شکایت درج کرانے اور ان شکایات کے ازالے کے لیے 1787 ہیلپ لائن مکمل طور پر فعال کیا گیا ہے۔ ویب بیسڈ کمپلینٹ ریزولیوشن سسٹم قائم کیا گیا ہے۔ اس سارے سسٹم کو خود آئی جی صاحب دیکھتے ہیں اور فالو اپ لیتے ہیں۔ لاہورشہر کے داخلی راستوں پر قائم ای چیک پوسٹس نادرا، ایکسائز اور کریمنل ریکارڈ آفس سے منسلک ہیں، جو مشکوک افراد یا گاڑی کی فوری نشاندہی کرتی ہیں۔ ان چیک پوسٹس کو دیگر اضلاع میں بھی متعارف کرایا جا رہا ہے۔ چیف آرگنائزر سائبان خرم شہزاد عید ملنے تشریف لائے تو فرمانے لگے۔ راجہ صاحب آپ نے گوجرانوالہ میں بہت سے لوگوں کے تقریبات کروائی ہیں۔ اب میرا مشورہ مانیں اور ایک شام آئی جی پنجاب پولیس کے نام رکھیں یا ایک مشاعرہ پولیس کے جوانوں کے اعزاز میں ضرور کروائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک عام انسان کی اپنی پولیس فورس کے چیف سے محبت ہے اور جہاں عوام اور فورسز کے درمیاں محبت کا پودا پروان چڑھنے لگیں وہاں اعتماد پیدا ہوتا ہے، نفرتیں ختم اور جرم کی شرح کم ہونے لگتی ہے۔
اپڈیٹ : ۔عباس منیر/پل مانگا ضلع نارووال پٹرولنگ پولیس گوجرانوالہ ریجن
Post a Comment