چیف جسٹس عامر فاروق نے محفوظ فیصلہ سنا دیا، عدالت نے توڑ پھوڑ کے معاملے پر سیکریٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کے نوٹس بھی جاری کردیے ہیں، رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کو ایف آئی آر درج کرانے کا حکم دیا ہے، رجسٹرار 16 مئی تک انکوائری کرکے رپورٹ جمع کرائیں گے۔ قبل ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی عدالتی احاطے سے گرفتاری کے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جو آج ہی سنادیا گیا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق عمران خان کے مقدمات سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی اور شور شرابے پر پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ عمران خان کو گرفتار کرلیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ آپ نے یہ غلط کام ہے جس نے بھی کیا ہے اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آدھا گھنٹہ دے دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے پتا چلا ہے کہ شیشے توڑے گئے ہیں، جس نے بھی کیا غلط کیا ہے، مجھے کارروائی کرنی پڑی تو وزرا اور وزیر اعظم کے خلاف بھی کارروائی کروں گا۔
عمران خان کے وکیل نعیم نے کہا کہ پولیس، وکلا اور اسٹاف کو رینجرز نے مارا ہے۔ عدالت نے پوچھا کہ عمران خان کو کس مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے؟ فوراً بتائیں۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد، سیکریٹری داخلہ کو پندرہ منٹ میں طلب کرلیا۔ انہوں ںے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بھی پندرہ منٹ میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔
علی بخاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ عمران خان بائیو میٹرک کرانے برانچ گئے انہیں بائیو میٹرک روم کے شیشے توڑ کر گرفتار کیا گیا، ہماری آنکھوں پر اسپرے کیا گیا اور سر پر ڈنڈے مارے گئے۔
رینجرز نے عمران خان پر تشدد کیا، وکیل بیرسٹر گوہر
واقعے کے وقت دائرہ برانچ میں موجودہ بیرسٹر علی گوہر نے کہا کہ رینجرز نے عمران خان پر تشدد کیا، عمران خان کی سر اور ٹانگ پر مارا، عمران خان کو گرفتار کرنے والے تمام لوگ رینجرز اہلکار تھے، عمران خان کی زخمی ٹانگ پر تشدد کیا گیا، عمران خان کی وہیل چیئر وہیں پر پھینک دی گئی، ملازمین وکلا کو مارا گیا، شیشے توڑے گئے۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی اور عمران خان کی احاطہ عدالت سے گرفتاری پر بات ہوئی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری کے وقت نیب تو نہیں تھی؟ اگر قانون کے مطابق نہیں ہوا تو مناسب آرڈر پاس کریں گے، اگر قانون سے ہٹ کر کچھ ہوا ہے تو نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ آج جو کچھ ہوا اس کے بعد وکالت ختم ہوگئی۔عدالت نے سیکریٹری داخلہ اور آئی جی کو طلب کیا تھا جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ سیکریٹری داخلہ پشاور میں ہیں ان کی جگہ ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ آرہے ہیں جو کہ راستے میں ہیں۔
چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہے کتنا بڑا ہے؟ پندرہ منٹ لگتے ہیں۔ عدالت کو آئی جی نے بتایا کہ عمران خان کی گرفتاری نیب نے کی اور ان کی گرفتاری کے وارنٹ موجود تھے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان کی عبوری ضمانت کی درخواست آئی تھی جب کہ آئی جی نے کہا کہ مجھے نہیں پتا کہاں سے گرفتاری ہوئی؟ وکیل بیرسٹر گوہر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کے سر پر راڈ ماری گئی میں یہ بیان حلفی دینے کے لیے تیار ہوں۔
Post a Comment