موسم سے متعلق اہم معلومات صورتحال اور الرٹس

اہم معلومات اور الرٹ

میں اپنے احباب کے علم میں خاص معلومات لانا چاہتا ہوں، اس طرح کی معلومات میں پہلے بھی گوش گزار کر چکا ہوں، اور یہ معلومات معذرت کیساتھ ایک باشعور شہری کے دل و دماغ پر ہی اثر کریں گی.

گزشتہ کئی برسوں سے ان تمام افراد جن کی عمریں 40 سال یا اس سے زائد ہیں ، نے محسوس کیا ہوگا کہ گرمیوں کا موسم طویل اور سردیاں مختصر ہوگئی ہیں اور بارشیں نہ ہونے کے برابر، حتی کہ مون سون بارشیں بھی، جوکہ کھبی کبھار ہی ہوتی ہیں.

اگر کسی سے یہ بات کی جائے تو آگے سے معذرت کے ساتھ ہر کوئی مفتی بن جاتا ہے اور یہ جواب دیتا ہے کہ یہ سب اللہ کا کام ہے یا اللہ کا عذاب !!

لیکن درحقیقت یہ قطعی طور پر اللہ کا عذاب نہیں ہے، یہ سب ہم انسانوں کی ہی کارستانیاں ہیں. جی ہاں...

ہماری سیلاب کی طرح بڑھتی ہوئی آبادی اور اسی رفتار سے بڑھتی ہوئی تعمیرات نے اس زمین کی ہریالی اور نمی کو چھین لیا ہے.

اس ضمن میں ایک جدید تحقیق کو آپ تمام احباب کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں،، جو کہ ایک دفعہ پھر معذرت کیساتھ صرف باشعور افراد کی ہی سمجھ میں آئے گی.

اس تحقیق کے مطابق ہمارے خطے میں جون کے مہینے میں جون کی شدید دوپہر میں ایک 5 مرلے کا تعمیر شدہ گھر جس پر اگر سفید رنگ ہوا ہو تو اطراف میں ہوا کے درجہ حرارت میں 3 درجہ کا اضافہ کرتا ہے، اگر مکان بغیر رنگ کے خالی سیمینٹ کا پلستر شدہ ہے تو 4 سے 7 درجہ سینٹی گریڈ درجہ حرارت اضافہ ہوتا ہے اور اگر اینٹوں والا مکان ہے تو 10 درجہ سینٹی گریڈ تک اضافہ ہو جاتا ہے،

دوسری طرف ایک اوسط 15 سے 20 فٹ کا ہرا بھرا گھنا درخت اپنے اطراف کا 3 درجہ سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت کم کرتا ہے اور ہوا میں آکسیجن اور نمی بھی چھوڑتا ہے.

بدقسمتی سے ہمارے خطے میں گھنے درخت اب عجوبے کی شکل اختیار کرچکے ہیں،، ہرے بھرے لہلہاتے کھیت اور باغات کی جگہ پر کئی کلومیٹروں پر پھیلی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن گئی ہیں، میں خود اس گناہ میں برابر کا شریک ہوں کیونکہ کہ میں خود ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہتا ہوں جہاں آج سے 15 برس پہلے تک لہلہاتے ہرے بھرے کھیت ہوا کرتے تھے.

ہمارے خطے میں مون سون کے علاوہ مغربی سسٹم سے بارشیں ہوتی ہیں، لیکن مغربی سسٹم یہ نہیں کہ اپنے ساتھ بادلوں کو لاتا ہے، مغربی سسٹم ایک نظام ہے جسکے تحت راستے میں بادل بنتے اور برستے جاتے ہیں، لیکن وہ اسی صورت ممکن ہوتا ہے کہ زمینی حالات اس سسٹم کیلئے معاون ہوں.

مغربی سسٹم جو کہ وسطی یورپ سے چلتا ہے، ہمارے خطے میں پہنچنے سے ایک دن پہلے ہوا کا دباؤ کم ہو جاتا ہے، جسکی وجہ سے درجہ حرارت قدرے بڑھ جاتا ہے اور یہ ہوا کا کم دباؤ زمین پر موجود نمی اور آکسیجن کو اوپری فضا میں پہنچاتا ہے، اوپری فضا میں کم درجہ حرارت اور کیمیائی عمل کے تحت بادل بنتے اور برستے ہیں،، اسمیں شدت یہی ہوتی ہے کہ جتنی زیادہ نمی اوپری فضا میں جائے گی اتنے ہی گہرے بادل بنیں گے اور اتنی ہی زیادہ بارش ہوگی.

اب ہمارے ہاں کیا المیہ ہے، کہ نہ تو درخت ہیں اور نہ ہی کھڑے پانی کے کوئی چھوٹے موٹے زخائیر بچے ہیں.

درخت نہ ہونے کے باعث اکسیجن کی وجہ سے فضا آلودہ ہو چکی ہے، پانی کے زخائیر نہ ہونے کے باعث ہوا بالکل خشک ہوچکی ہے تو بارش کہا سے ہوگی. مون سون میں تو بھرپور نمی آجاتی ہے لیکن وہ بھی ان تعمیرات کی وجہ سے زمین پر ہی معلق رہ جاتی ہے.

اب آپ یہ سوال بھی کریں گے کہ جو گزشتہ برس سیلاب آیا ،،، وہ کیسے آیا؟

تو اسکا جواب یہ ہے کہ گزشتہ برس جو بارشیں ہوئیں وہ ان بارشوں سے قطعی طور کم تھیں جو کہ کسی زمانے میں تباہی مچایا کرتی تھیں.

یہ سیلاب نہیں تھا بلکہ ہماری ناقص اعقلی کی خمیازہ تھا، ہماری بڑھتی ہوئی آبادی کا نتیجہ تھا ، جب ہم دریاؤں کی خشک گزرگاہوں، جھیلوں کے کناروں اور پہاڑوں کے دامنوں میں بستیاں قائم کریں گے تو اسکا نتیجہ تو یہی ہوگا. سوات میں دریا کو تنگ کرکے بڑے بڑے ہوٹل تعمیر کیے گئے، دریاؤں اور جھیلوں نے اپنا راستہ اور اپنا رقبہ ہم سے واپس لیا ہے بس.... اگر پھر سے انہی علاقوں میں پھر بستیاں قائم ہوگئیں تو پھر بربادی ہوگی. لوگ اتنے بے شعور ہیں کہ انہیں زمینوں کے نشیب و فراز کا ہی نہیں پتہ، سوائے 8 سے 12 بچے پیدا کرنے کے... معذرت کیساتھ ...

واپس اپنے خطے کی طرف آئیں تو میں نے یہاں ایسا دور بھی دیکھا ہے کہ دیہاتوں میں لوگ مئی جون کے مہینوں میں چھٹی کے دن پھلوں کے گھنے باغات میں چارپایاں بچھا کر پورا دن گزارتے، اور باغات نہ بھی ہوں ، گاؤں میں لگے ان گنت گھنے درختوں کے نیچے لوگوں کے مجمعے لگے رہتے، اور جس دن شدید گرمی ہوتی اسی دن بعد دوپہر شدید بارش ہوجاتی،

لیکن افسوس پچھلے کئی برسوں سے یہ صورتحال دیکھنے کو نہیں ملی.

دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے پڑوسی بھارتی پنجاب میں آج بھی دیہاتوں کے رقبے وہی ہیں جو آج سے 75 برس پہلے تھے، درختوں کی وہاں بزرگوں کی طرح قدر کی جاتی ہے، وہاں دیہاتوں میں صدیوں پہلے جو جوہڑ تالاب تھے آج بھی موجودہ ہیں، وہاں دیہاتوں میں ایک قانون لاگو ہے، وہ یہ کہ کسی بھی ذرعی اراضی پر کسی قسم کی کوئی تعمیرات نہیں بنیں گی، اگر کسی کوئی اپنی ذرعی اراضی کو فروخت کرتا ہے تو

خریدار کو بھی زراعت ہی کرنی ہوگی، آبادی کے اضافے کے پیش نظر اگر گھر کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ پرانے گھر اوپر نئی منزلیں تعمیر کر لیتے ہیں، جسکی زندہ مثال آج بھی ہمارے ہاں موجود 100 سال پرانی عمارتوں کی شکل میں ہے، جو کہ اس دور میں بھی 4،،5 منزلیں بنایا کرتے تھے جن میں بیک وقت کئی خاندان رہتے تھے.

اس برعکس ہمارے ہاں معذرت کیساتھ ایک بچہ ابھی سکول میں ہوتا ہے اور اسکا باپ زرعی زمین پر پہلے ہی اسکا مکان بنا کر زرعی اراضی برباد کر دیتاہے، اسکے علاوہ ایک زمیندار کے 7 بیٹے ہیں، شادیوں سے پہلے باپ سے اپنی زمینوں کے حصے کروا لیتے ہیں، کوئی شادی حال بنا لیتا ہے، تو کوئی ہاؤسنگ سوسائیٹی ، کوئی عالی شان بنگلہ بنا کر باقی کی زمین بیچ کر یورپ چلا جاتا ہے، تو کوئی پولٹری فارم بنا لیتا ہے. اس دوران نہ زرعی اراضی کی پرواہ کی جاتی ہے، نہ بزرگ درختوں کی اور نہ ہی جوہڑ تالابوں کی. سب کچھ روند دیا جاتا ہے.

پرانے وقتوں میں بزرگوں سے ایک کہاوت سنا کرتے تھے کہ

"جس پینڈ وچ چھپڑ نہ ہووے، اوتھے بدل نئی آندے"

اب یہاں ہر 15 دن کے بعد مغربی سسٹم آرہے ہیں لیکن بارش نہیں ہورہی.

بہار کا موسم خزاں کی شکل پیش کر رہا ہے.

9 مارچ کو مغربی سسٹم متوقع ہے، اور زمینی صورتحال جسطرح بگڑ چکی، موسمی صورتحال بھی اب تشویشناک ہوسکتی ہے، خاص طور پر زرعی شعبے کیلئے جو کہ ابھی بھی نا مناسب حالات کے باوجود تھوڑا بہت چل رہا ہے.

میری یہ باتیں خاص طور پر پراپرٹی سے منسلک احباب کو ناگوار گزریں لیکن حقائق یہی ہیں،

ظلم کی انتہا یہ ہے کہ جہاں ان حالات میں ہمارے ملک کو ذراعت اور برامداتی صنعت میں ترقی کی ہنگامی ضرورت ہے وہاں تیزی سے اس شعبے میں ترقی ہو رہی ہے جس سے ہماری زراعت ، موسم ، صنعتیں اور روزگار تیزی سے برباد ہورہے ہیں. اور ہمارا خطہ ایک کنکریٹ کا جنگل بن رہا ہے.

متعدد بار اس معاملے پر قانون سازی ہو چکی ہے لیکن قانون کے منصف ان لوگوں کی جیبوں میں ہیں، ایک ہاؤسنگ سوسائیٹی کو منظور کرانے کیلئے دو تین پلاٹوں کی قربانی انکے لئیے کوئی معنے نہیں رکھتی، نتیجتاً قانون کا منصف اسی ہاؤسنگ سوسائیٹی میں سکون کی نیند سو رہا ہوتا ہے، اور قانون بنانے والے بے بس ہو کر بیٹھ جاتے ہیں.

لیکن یہاں سارے کا سارا انحصار عوام پر ہے، اگر عوام ڈٹ جائے تو دنیا کی سب سے بڑی بھارت کی لینڈ مافیا (امبانی / اڈانی) بھی مٹھی بھر پنجاب کے کسانوں کے آگے بے بس ہوجاتے ہیں.

0/Post a Comment/Comments