مجسمے بولتے ہیں ایک قوت ایمانی سے سرشار واقعہ


زیر نظر تصویر ایک مجسمے کی ہے جس میں دودھ بیچنے والا ترک شخص فرانسیسی جنرل کو اسکے ریوالور سے قتل کر رہا ہے۔ یہ مجسمہ جنوبی ترکی کے شہر قھرمان مرعش میں نصب ہے۔عثمانی سلطنت کے سقوط کے بعد یہ شہر فرانسیسی تسلط میں چلا گیا تھا اور چونکہ عثمانی سلطنت میں مسلمانوں کا رواج شرعی تھا تو یہاں بھی خواتین پردے کے طور پر بڑی چادر لیا کرتی تھیں۔

واقعہ یہ ہے کہ فرانسیسی قبضے کے بعد انکا فوجی جنرل شہر کا دورہ کر رہا تھا۔ اس دوران اس نے بازار میں خواتین کو دیکھا جو کہ مکمل با پردہ تھیں تو اسے غصہ آیا۔اس نے خواتین کو تحکمانہ انداز میں کہا؛ تمہاری سلطنت ختم ہو چکی اور اب تم مغربی سلطنت کے ماتحت ہو لہٰذا اپنے برقعے اتار دو! خواتین نے اس کے حکم کو خاطرخواہ نہیں سمجھا اور چل دیں۔ جنرل نے جب دیکھا کہ اس کے حکم کو سنا ان سنا کردیا گیا تو اس نے غصے میں آ کر اک خاتون کی چادر کھینچ لی۔ قریب ہی ایک ترک جوان (امام سوتجو) جو دودھ بیچ رہا تھا یہ منظر دیکھ کر اس سے رہا نہیں گیا اور غیرت ایمانی سے سرشار ہو کر اس نے جنرل کے ہولسٹر سے اس کی ریوالور نکال کر اسے وہیں قتل کر ڈالا۔اس واقعے کے بعد قھرمان میں ہنگامے پھوٹ پڑے جس کی بدولت 1923 میں قھرمان فرانسیسی تسلط سے آزاد ہوگیا۔

جس جگہ یہ وقوعہ ہوا حکومت نے اس جگہ امام سوتجو کی یادگار بناکر پوری ترک قوم کے لئے غیرت کا استعارہ بنادیا اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کے نام سے یونیورسٹی بھی بنائی گئی ہے اور یہ واقعہ باقاعدہ اسکولوں میں داخل نصاب کردیا گیا۔

بلاشبہ زندہ قومیں اپنے ہیروز کو ہی اپنا مقتدا سمجھتی ہیں۔ بحیثیت پاکستانی ہم ان سے اپنا موازنہ کر لیں کہ ہمارے ہاں انگریزی غلامی میں چادر تو دور پورا اسلامی لباس ہی اتار دیا گیا۔ سرکاری دفاتر میں پگڑی ویٹر کو پہنائی جاتی ہے جو انگریزوں نے اسلام اور مسلمان دشمنی میں رائج کی تھی

0/Post a Comment/Comments