پسرور شہر تاریخ کے جھروکوں میں لازمی وزٹ کریں

پسرور


محمد حسن معراج


جہانگیر یہاں سے گزرا تو اس جگہ کو اتنا پر سرور پایا کہ نام ہی پرسرور رکھ دیا اور پھر بدلتے بدلتے پسرور نام ہو گیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پسرور نام کی وجہ کوئی پرسو رام ہے مگر نام کا کیا ہے۔ پسرور ہو یا پر سرور، تاریخ میں تو بس یہاں مغلوں کی توزکیں ہیں اور بادشاہوں کی شکار گاہیں۔

شہر کے دو دروازے ہیں، تحصیل دروازہ اور ککے زئی دروازہ، باقی کا شہر، شہر پناہ میں ہے۔ کہیں سے گری اور کہیں سے گرائی گئی فصیل، شہر کے قدیم ہونے کا پتہ دیتی ہے۔

دو برجی میں سید جلال الدین شاہ بخاری کا مز ار ہے اور شہر کے درمیان ایک ہشت پہلو تالاب ہے جو مغلوں کے ایک ملازم کالو مل نے بنوایا تھا۔ اس کے علاوہ ایک باغ بھی ہے جو دارالشکوہ نے نہر کھدوا کے سیراب کیا۔ باہر کی طرف شمشان گھاٹ ہے، اما م علی الحق کے چھوٹے بھائی اور میاں برخوردار کا مزار ہے اور پیر مرادیا کا ذکر ۔ بس یہی شہر کا کل نقشہ ہے۔

اندرون شہر میں محلہ دیسیالی ہے، محلہ پٹی ہے اور محلہ کھوکھراں۔ ککے زئیاں کے محلے میں مسجد اہلحدیث ہے جو غالبا بارہویں صدی کی ہے۔ اس کے علاوہ پرانی عمارتوں میں محکم چند کی حویلی اور حاکم سنگت رائے کی بارہ دری ہے۔ حویلی کا تو علم نہیں مگر بارہ دری کو گرا کر مقامی سکول کے پرنسپل کی رہائش گاہ بن گئی ہے۔

جموں کے راجہ کا بنایا ہوا گیندے والا مندر بھی تھا جو بابری مسجد کے بعد تباہ ہو گیا۔ اندرون شہر ایک اور مندر تھا جس نے اب ایک اسکول میں پناہ لے لی ہے، مذہب اور تعلیم کا یہ بھی تو ایک رشتہ ہے۔

جین لوگوں نے جب کپڑے کا کاروبار شروع کیا تو گھوڑوں پہ تھان لاد کر قریب کی بستیوں میں جا کر بیچتے تھے۔ بابا دھرم داس بھی ایسا ہی ایک بیوپاری تھا۔ ایک دن بابا کا گھوڑا واپس آیا تو خالی تھا۔ بابا دھرم داس بھلا آدمی تھا سو لوگوں نے عقیدت نبھائی اور شہر کے باہر اس کی سمادھی بنا دی۔

تقسیم ہوئی تو جین لوگ پاکستان چھوڑ کر چل دئیے۔ ہندوستان میں جگہ ملی، ذرا ہاتھ پاؤں سنبھلے تو کاروبار کی طرف آئے اور مزید آسودگی آئی تو ماضی کی طرف بھی آ گئے۔

اب بابا دھرم داس کے عقیدت مند پاکستان آتے ہیں، ڈھونڈھ ڈھانڈھ کر سمادھی کی چند اینٹیں لیتے ہیں اور واپس جا کر ان اینٹوں کی ایک اور یادگار تعمیر کرتے ہیں۔ بابا دھرم داس کی دو سمادھیاں ہیں، ایک دلی کی طرف اور دوسری میرٹھ کے راستے۔ مٹی کا سفر بھی کتنا عجیب ہے، کربلا کی مٹھی بھر مٹی ہو یا مندر کی اینٹ، اس کی دو ہی جگہیں ہیں یا قدموں کے نیچے یا ماتھے کے اوپر۔

شہر کے باہر اب ایک چھوٹا سا تالاب ہے۔ گئے دنوں میں یہاں دیوکا نالہ تھا۔ اسی کے کنارے گورودوارہ منجی صاحب ہے۔ بابا نانک حج کے سفر کے دوران یہاں رکے اور میاں مٹھا نام کے صوفی سے ملاقات ہوئی، پہلے میاں مٹھا نے بابا نانک کو کلمہ پڑھنے کی دعوت دی پھر بابا نانک نے نیت راست ہونے کی بات کی اور دونوں باہم عقیدت سے ایک دوسرے سے رخصت ہوئے۔ اس جگہ کا نام کوٹھا میاں مٹھا ہوا کرتا تھا پھر دیوکا نالہ پڑ گیا۔

شہر اب نئے رنگ میں ڈھل گیا ہے، ایک کیڈٹ کالج کھل گیا ہے اور ہشت پہلو تالاب کے بارے میں بھی لوگ کم کم ہی جانتے ہیں۔ گودوارے، جین مندر، سمادھیاں اور پرانے دروازے سب خدا خبر کہاں گئے۔


0/Post a Comment/Comments