آزاد کشمیر 08 اکتوبر2005 تباہی کی عبارت لکھ گیا کچھ تلخ یادیں اس دن سے منسوب ہیں

آزاد کشمیر 08 اکتوبر 2005 تباہی کی عبارت لکھ گیا کچھ تلخ یادیں اس دن سے منسوب ہیں میں اس وقت پولیس ٹرینگ سکول چوہنگ میں ٹریننگ کر رہا تھا اور ہمیں 7 اکتوبر کو ویکنڈ ملا اور ہم خوشی خوشی گھر آئے تب میرے والد محترم اور والدہ محترمہ بھی حیات تھے صبح آٹھ بج کر باون منٹ پر ایک خوفناک زلزلہ آیا چند لمحات میں اس نے لاکوں افراد کو مٹی کے نیچے دبا دیا میں ان لمحات کو کبھی نہیں بھلا سکتا

صوبہ پنجاب، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں 7.6ریکٹر اسکیل کی شدت سے آنے والا زلزلہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین اور 2005ء میں دنیا کا چوتھا بڑازلزلہ تھا۔ جب کہ اس سے قبل دسمبر 2004ء میں 9.0ریکٹر اسکیل کی شدت سے انڈونیشیا کے زیر سمندر زلزلے کے باعث اٹھنے والی سونامی کی لہر کے نتیجے میں لاکھوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ جب کہ ایران کے شہر باممیں 2003ء میںزلزلے سے 30ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کی شدت 6.7تھی۔ جنوری 2001میں بھارتی صوبےگجراتمیں 20ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔جون1990ءمیں شمال مغربی ایران میں زلزلے کے نتیجے میں 40ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جبکہجولائی 1976ء میں چین میں آنے والے زلزلے سے ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس سے قبل مئی 1970میں پیرو کے شہر ماونٹ ہواسکاران میں زلزلے اور مٹی کے تودے گرنے سے 70ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اسی طرح دسمبر 1939ء میں ترکی کے شہر ایر زنکن میں تقریباً 40ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔ جبکہ 1935میں کوئٹہ میں آنے والے زلزلے سے 50ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔1927ء میں چین میں زلزلے کی تباہی سے 80ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ چین ہی میں 1927میں ایک اور زلزلے میں دولاکھ افراد ہلاک ہو گئے۔1923ء میں جاپان کے شہر اوکلا ہوما میں زلزلے نے ایک لاکھ 40ہزار افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔ جب کہ چین ہی میں 1920میں آنے والے ایک زلزلے سے 2لاکھ 35ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔1908میں اٹلی میں ایک زلزلہ آیا جس نے 83ہزار افراد کو ہلاک کر دیا۔ بھارتی محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر نے کہا کہ ہفتہ کے روز آنے والا شدید زلزلہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 120 سال کے دوران آنے والا شدید ترین زلزلہ تھا۔


 آزادکشمیر آٹھ اکتوبر 2005 کا وہ درد ناک دِن ہے جہاں کئی بوڑھے اپنی جوان اولاد کی لاشیں اٹھا رہے تھے‘کہیں کندھے دینے والوں نے کندھا مانگ لیا‘ کئی ماؤں کے کلیجے چھلنی ہوئے‘کئی بچے سکول تو گئے لیکن واپسی کے لئے مائیں تاحشر ترسیں گی‘ کئی بستیاں اجڑ گئی‘ کئی امیدیں ختم ہوئیں‘ وہ قیامت صغریٰ اپنے ان گنت نقوش چھوڑ گی۔جہاں بڑی تعداد میں بچے اپنے سکولوں میں ہی دفن ہو گئے وہیں بچ جانے والے ننھے دماغوں پرگہرے نقوش ثبت ہو گئے۔ ایک قیامت تھی جو آ کر گزر گئی تھی۔ لوگ سکتے کی کیفیت میں تھے۔ یقین آتا بھی تو کیسے؟ نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔ یوں بھی کبھی ہوتا ہے کہ آن کی آن میں گاؤں کے گاؤں اور بستیوں کی بستیاں خاک ہو جائیں؟ لینڈ سلائیڈنگ کے باعث راستے معدوم ہو چکے تھے۔ میلوں پیدل دشوار راستوں پر سفر کر کے لوگ اپنے آبائی علاقوں تک جا رہے تھے کہ کسی اپنے کو زندہ سلامت دیکھ سکیں۔خشکی‘ بیا بانوں اور سمندروں میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اعمال کی وجہ سے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے بعض اعمال کا بدلہ دیں تاکہ یہ لوگ اللہ کی طرف رجوع کرلیں۔ (سورۃ روم)۔زلزلے کی حقیقت اور اس کے اسباب کے بارے میں مختلف نظریات ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک عرصے کے بعد زمین کی پلیٹیں تبدیل ہوتی ہیں۔ جب زمین کی پلیٹیں تبدیل ہوتی ہیں تو اس سے پیدا ہونے والی کشمکش کو زلزلے سے تعبیر کیاجاتاہے۔ چونکہ یہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے  حدیث کی رو سے زلزلے کی وجہ انسانوں کی بد اعمالیاں اور گناہ ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جب مال غنیمت دولت سمیٹنے کاذریعہ بن جائے‘ امانت کو غنیمت سمجھاجائے اور زکوٰۃ کو بوجھ سمجھاجائے دین کا علم دنیوی مقصد کے تحت حاصل کیاجائے‘ آدمی اپنی بیوی کی فرمانبرداری کرے اور ماں کی نافرمانی کرے۔دوست سے قربت بڑھائی جائے اور باپ سے دوری اختیار کی جائے۔مساجد میں شور وغل بلند ہونے لگے اور معاشرے کا درسار بنے‘ کسی کے شر سے بچنے کے لیے اس کی عزت کی جائے۔اداکارائیں اور موسیقی کے آلات عام ہوجائیں۔ شراب سر عام پی جانے لگے۔ اس امت کے بعد والے لوگ پہلے والوں کو برا بھلا کہیں تو پھر انتظار کرو تندوتیز ہواؤں کا‘ زمین میں زلزلوں کا‘ زمین میں دھنسے جانے کا‘ بندروخنزیر بنائے جانے کا اور آسمان سے پتھر برسنے کا اور یکے بعد دیگر ے آنے والی ایسی نشانیوں کا جو تسبیح کی لڑی ٹوٹنے کے بعد تسبیح کے دانوں کے گرنے کی طرح پے در پے آئیں گی۔”ایک اور حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھما فرماتی ہیں: جب شادی شدہ عورتیں بہک جائیں‘ جب لوگ زنا کو حلال سمجھنے لگیں‘ شراب پیے اور گانوں کی محفلیں سجنے لگیں تو اللہ تعالیٰ کو آسمان میں غیرت آتی ہے وہ زمین کو حکم دیتا ہے زمین میں زلزلے آنے لگتے ہیں۔ 


سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ میں عبور حاصل کر نا غیر مسلموں کا اثاثہ نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کی میراث بھی ہے اور فرض بھی‘ اسلام کے وہ بنیادی تصورات اور تعلیم جس سے تقریباً ہر مسلمان واقف ہے۔ جدید ریسرچ پر ہی زور دیتے ہیں۔ہماری کہکشاں گلیکسی وے میں سورج جیسے اربوں ستارے ہیں ان کے اپنے نظام شمسی ہیں۔ سورج سے ہزاروں گُنا بڑے ستارے بھی ہماری کہکشاں میں موجود ہیں۔ ہماری کہکشاں سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں گُنا بڑی کئی کہکشائیں دریافت ہوچکی ہیں۔ کائنات میں کھربوں میل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔سب سے پہلے انسان نے اپنی بنیادی ضروریات پر توجہ دی۔ دھاتوں کو اپنے استعمال میں لایا پھر آہستہ آہستہ سائنسی ایجادات کی دُنیا میں داخل ہوا اب ہر لمحہ نِت نئی ایجادات ہو رہی ہیں، مگر یہ سارا علِم وہ ہے کہ جو آدم کو اللہ کا نائب ڈکلیئر کرنے سے پہلے ہی عطا کر دیا گیا تھا۔ 

جوہری سائنسدانوں نے انتہائی خوفناک اور شدت کے ساتھ زلزلے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ یہ اس قدر خطرناک ہوگا کہ براعظموں کو جدا کردیگا اور اس سے کروڑوں لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔ شمالی اور جنوبی امریکہ کے براعظم ٹوٹ کے الگ ہوجائیں گے۔ میگا سونامی کے ٹکرانے سے امریکہ اور ایشیا میں تقریبا 4 کروڑ افرادہلاک ہوسکتے ہیں۔ یونیورسٹی آف لندن میں جوہری انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے ایک ڈاکٹر نے دعویٰ بھی کیا کہ یہ سونامی اور زلزلہ اس قدر شدید ہوگا کہ صرف امریکہ کے مغربی ساحل پر 2 کروڑ افرادہلاک ہو سکتے ہیں۔انہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سائنس دانوں نے Svalbardنامی جزیرے میں تمام جینز کو محفوظ کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ ”سوالبارڈ“ نارتھ پول اور ناروے کے بیچ میں واقع ایک ٹھنڈا جزیرہ ہے۔ یہ دُنیا کا سب سے سرد علاقہ ہے۔ اس کا درجہ حرارت ہمیشہ منفی ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ اس میں ”حفاظتی تہہ خانہ“ بنایا گیا ہے۔ یہ سمندر کی سطح سے 130 میٹر بلند ہے۔ جو کسی بھی سمندری آفت یا سطح سمندر کے بڑھنے کے خطرات سے محفوظ رہے گا۔ اس میں تین والٹس بنائے گئے ہیں جن میں 15 لاکھ بیجوں کے سیمپلز فی والٹ رکھے جاسکتے ہیں۔ مجموعی طورپر 45 لاکھ نمونے رکھے جاسکتے ہیں۔ یہاں کا درجہ حرارت منفی 18 ڈگری رکھا جائے گا جوکہ ان بیجوں اور جینز کی عرصہ دراز تک حفاظت کے لئے ضروری ہے۔

انسان زلزلے سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرے اچھی بات ہے۔ حکومتیں سیلاب اور زلزلے کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کی سر توڑ کوششیں کریں۔عوام ایسے اقدامات کو کو سر آنکھوں پر‘ لیکن خدارا! حقائق سے آنکھیں نہ چرائیں۔ من حاصل مسلمان قوم ہمیں اعمال کی اصلاح کرنے چاہیے مگر اس کے برعکس کہا جاتا ہے کہ عمارتیں جتنی مضبوط بنالی جائیں قدرتی آفات ان عمارتوں کو پھر بھی تباہ کرسکتی ہیں۔ سونامی کو جاپان نہیں روک پایا۔ ’’تباہ کن ہواؤں‘‘ کو امریکہ قابو نہ کرپایا۔ عمارتیں جتنی زلزلہ پروف بنالی جائیں زلزلے کے خوف اور اس کے نقصانات سے ا نسان خود کو بچا نہیں پائے گا۔ اسلام آبا د‘ کراچی اور آزاد کشمیر کے کئی علاقوں کے بارے میں کہاجاتاہے کہ یہ فالٹ لائنز کے بالکل اوپر ہیں اور کشمیر کی فالٹ لائن پھر سے ایکٹیو ہو چکی ہے۔جو کہا جارہا ہے کہ کسی بھی وقت بڑا زلزلہ ہو سکتا ہے۔ ماہر کا کہنا ہے کہ زلزلہ انسان کو نہیں مارتا بلکہ لاپرواہی، غفلت اور عدم توجہی انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتی ہیں۔ ایسی فالٹ لائن ریڈ زون پر سات سات منزلہ عمارتیں بنانا، بوسیدہ عمارتیں میں رہائش پذیر ہونا خود کشی کے مترادف ہے۔اسلام نے جان کی حفاظ کو فرض قرار دیا ہے۔ 

زلزلے صرف زیر زمین پلیٹوں کے ملنے یا چٹانوں کے کھسکنے کی وجہ سے نہیں آتےبلکہ یہ انسانوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے آتے ہیں اور یہ زلزلے انھیں بد اعمالیوں سے باز آنے کے لیے الارم اور وارننگ ہیں؛ لہٰذا یہ بندوں کے حق میں رحمت ہیں کہ اُن کو اِسی دنیا میں اپنی اصلاح کے لیے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ ہاں زلزلہ آتا ہے اگر وہاں کے لوگ توبہ کرلیں اور بد اعمالیوں سے باز  جائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے‘ورنہ ان کے لیے ہلاکت ہے۔مستعد رہیے‘ غیر متوقع کے لئے تیار رہیں۔

0/Post a Comment/Comments