آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 55 لاکھ سے زائد بچے سکول نہیں جاتے ہیں۔
ان بچوں کی عمریں پانچ سے 15 سال کے درمیان ہیں مگر وہ تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔
کرونا وبا کے بعد مہنگائی اور سیلاب سے بچوں پر تعلیم کے دروازے بند ہونے کی شرح مزید بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ پہلے ہی صوبہ بھر کے سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی تعداد کم ہے اور ایک لاکھ تک اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں کیونکہ گذشتہ چار سال سے اساتذہ کی بھرتیاں نہیں ہوئی ہیں۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ خواندگی کی شرح میں اضافہ کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور مشکلات کے باوجود بچوں کو سکولوں میں لایا جا رہا ہے۔
ماہرین تعلیم کا خیال ہے کہ خواندگی میں اضافے کے لیے حکومتیں، والدین اور معاشرہ کوئی بھی سنجیدہ کردار ادا کرنے کو تیار نہیں جس سے شرح خواندگی آبادی کے لحاظ سے غیر تسلی بخش ہے۔
حصول تعلیم کی شرح بڑھانے میں کیا روکاوٹیں ہیں؟
محکمہ لٹریسی پنجاب کے ایڈیشنل سیکرٹری بشیر احمد گورائیہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خواندگی کی شرح بڑھانے کے لیے حکومت تو اپنے طور پر اقدامات کر رہی ہے مگر بعض ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے مکمل طور پر تعلیم کو عام کرنے میں روکاوٹیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پنجاب بھر میں 55 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے جن کی عمریں پانچ سے 15 سال تک ہیں۔
’ہم نے اضلاع کی سطح پر مہم بھی چلائی اور والدین کو بھی آگاہ کیا کہ بچوں کو تعلیم دلوائیں مگر ایک تو والدین جو غریب ہیں وہ بچوں کو کمائی پر لگا دیتے ہیں، دوسرا قدرتی آفات اور بڑھتی آبادی کے پیش نظر حکومت جتنی بھی کوششیں کر لے خواندگی کا تناسب کم نہیں ہوتا البتہ خواندگی میں اضافہ ضرور ہوتا ہے۔‘
بشیر احمد کے بقول والدین خود بھی سنجیدہ نہیں، بچے چار سے پانچ ہیں تو انہیں تعلیم دلوانے کی بجائے انہیں کما کر لانے کی ترغیب دی جاتی ہے جس سے چائلڈ لیبر میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
’پہلے کرونا وبا کی وجہ سے تعلیمی نظام متاثر ہوا، سکول بند ہوئے تو والدین نے بچوں کو کسی نہ کسی کام پر لگا دیا۔ دوسرا مہنگائی بڑھنے سے بھی غریب اور متوسط طبقہ شدید معاشی مشکلات کی وجہ سے بچوں کو تعلیم دلوانے کی بجائے انہیں کام کرانے کی طرف راغب ہوا۔‘
ماہر تعلیم رسول بخش رئیس نے کہتے ہیں کہ حکومتوں، والدین یا معاشرہ میں شرح خواندگی میں اضافہ کے لیے کوئی بھی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہے۔
رسول بخش رئیس نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ یہاں جتنے غریب ہیں ان کے اتنے زیادہ بچے ہیں روزگار ہیں نہیں، نہ آبادی پر کنٹرول ہے نہ یہ شعور ہے کہ بچوں کو تعلیم دلوانا ضروری ہے۔‘
’معاشرہ میں بھی مڈل کلاس سے اپر کلاس تک کو گھروں میں یا دکانوں پر کام کرنے کے لیے بچوں کو ملازم رکھنا ہوتا ہے وہ بھی اس طرف توجہ نہیں دیتے کہ انہیں سکول میں ہونا چاہیے۔‘
Post a Comment