یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن مکمل تحریر چاندی کلاسوالہ

پاکستان سمیت دنیا بھر میں یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن اِس عہد کی تجدید کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ اقوامِ عالم معاشرے کے لیے خون پسینہ بہانے والے مزدوروں کیلئے قوانین میں نرمی لائیں گی اور انہیں بھی اُجرت کے نام پر ملنے والے معمولی معاوضے کی جگہ حقِ محنت ادا کیا جائے گا۔

مزدوروں کو حقِ محنت کی ادائیگی اور اوقاتِ کار میں انسانی کمزوری کے پہلوؤں کو مدنظر نہ رکھنا دو اتنے بڑے مسائل ہیں جن کا بندۂ مزدور کو ہر دور میں سامنا رہا۔ حد یہ ہے کہ انیسویں، بیسویں اور آج اکیسویں صدی کے دوران بھی مزدور طبقہ ان مسائل سے باہر نہ آسکا۔

یومِ مزدور کا تاریخی پس منظر

آج سے ٹھیک 134 سال قبل یعنی سن 1886ء میں امریکی ریاست شگاگو میں مزدوروں کے حقوق کیلئے پہلی بار ایک توانا آواز اٹھائی گئی جس کی یاد میں آج تک پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیمینار، کانفرنسز، ریلیاں، جلسے جلوس اور دیگر مختلف تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔

تاریخی اعتبار سے یہ دن اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ شکاگو کے مزدوروں نے سن 1886ء میں سرمایہ داروں اور وقت کے طالع آزماؤں سے مطالبہ کیا کہ ہم سے سولہ سولہ یا چودہ چودہ گھنٹے مزدوری نہ لی جائے بلکہ اوقاتِ کار کو 8 گھنٹے تک محدود کردیا جائے۔

شکاگو کے مزدور رہنماؤں نے ہر قانونی راستہ اپنایا جس پر سرمایہ دار ٹس سے مس نہ ہوئے جس پر یکم مئی کے روز مزدوروں نے ہڑتال کردی۔ 3 مئی کے روزمزدوروں کا احتجاجی جلسہ منعقد ہوا جس پر سرمایہ داروں نے حملہ کروا دیا جس کے نتیجے میں چار مزدوروں کی جانیں چلی گئیں۔

اس اندوہناک واقعے پر مزدوروں نے احتجاجی تحریک تیز کردی جبکہ 25ہزار مزدوروں کے احتجاج کو روکنا ریاست کے بس سے باہر ہوگیا۔ پولیس نے بھی مزدوروں پر تشدد شروع کردیا۔ اچانک ایک بم دھماکہ ہوا جس میں ایک پولیس والا مارا گیا۔

پولیس پیٹی بھائی کی ہلاکت پر طیش میں آگئی اور احتجاج کرنے والوں پر اندھا دھند گولیاں چلانا شروع کردیں۔ درجنوں مزدور فائرنگ سے جاں بحق ہوئے اور ان گنت زخمی ہوئے۔ یہ ظلم یہاں نہیں رکا بلکہ مزدور رہنماؤں کو گرفتار کرکے سزا سنا دی گئی۔

کہتے ہیں جب تک کسی تحریک میں انسانی خون شامل نہیں ہوتا، اسے وہ طاقت نہیں ملتی جو اسے منزل تک پہنچانے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔جب مزدور رہنماؤں کو بغیر کسی جرم کے سزائے موت سنائی گئی تو مزدور تحریک کو اس سے وہ طاقت ملی جو ملک کے ہر شہری کے لیے زندہ مثال بن گئی۔

ہوا کچھ یوں کہ جن مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سنائی گئی تھی، انہوں نے مرتے مرتے بھی حق بات کہنے کا فرض ادا کردیا۔ جاتے جاتے کہہ گئے کہ جسمانی طور پر ہمیں مٹانا ہے، مٹا دو، لیکن ہماری آواز رہتی دنیا تک تمہارے کانوں میں گونجتی رہے گی۔

خونِ ناحق نے پوری قوم کو افسردہ کردیا۔ سن 1989ء میں ریمنڈ لیوین نے تجویز دی کہ یکم مئی کو یومِ مزدور منایا جائے جس کا ہر شہری نے خیر مقدم کیا اور یوں یہ دن تاریخ کے صفحات پر امر ہوگیا۔

دن منانے کا مقصد

یومِ مزدور منانے کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ محنت کشوں کو ان کے حقوق کی پہچان کروائی جائے اور وہ حقوق انہیں دلائے جائیں جن کا علم نہ ہونے کے باعث ان کی صلاحیتوں کا فائدہ اٹھانے کے باوجود انہیں ان کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔

یہ دن منانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ عوام الناس میں یہ شعور پیدا کیاجائے کہ مزدور بھی انسان ہوتے ہیں۔ ان کے دلوں میں بھی ویسے ہی انسانی جذبات جنم لیتے اور اٹکھیلیاں کرتے ہیں جیسے دوسرے ہر انسان کے دل میں ہوا کرتا ہے۔ اس لیے ان کے حقوق کا تحفظ انسانیت کا تحفظ ہے۔

پاکستان اور یومِ مزدور

مملکتِ خداداد پاکستان میں مزدوروں کا حال دنیا بھر کے مزدوروں سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ ہر سال جب بھی یومِ مزدور منایا جاتا ہے۔ محنت کش مختلف نعروں پر مشتمل جھنڈے اور بینرز لے کر سڑکوں پر نکل پڑتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ شاید اِس بار ان کے مسائل حل ہوجائیں پھر بھی مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔

پاکستان سمیت ہر ملککے سرمایہ داروں، صنعتکاروں اور کاروباری برادری کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مزدوروں کے حقوق کا تحفظ دراصل ان کے کاروبار کا تحفظ ہے۔ اگر مزدور ذہنی سکون کے ساتھ کام کرے گا تو کام کے نتائج بہتر ہوں گے جس سے کاروبار ترقی حاصل کرے گا۔

علامہ اقبال اور یومِ مزدور

حکیم الامت اور شاعرِ مشرق کہلانے والے علامہ اقبال نے انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں آنکھ کھولی اور بیسویں صدی کے آغاز میں ہی داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ مزدور طبقے کی اُس وقت کیا حالت تھی، اس کا اندازہ علامہ اقبالؔ کے اشعار سے لگایا جاسکتا ہے:

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

کب ڈُوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟

دُنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات!

اگر ہم بندۂ مزدور کے اوقات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ مزدور سے اکیسویں صدی میں بھی 8 کی جگہ 12 اور 12 سے بڑھ کر 14 یا 16 گھنٹے مزدوری لی جاتی ہے جس سے اسے صرف اتنا ہی معاوضہ نصیب ہوتا ہے جس سے وہ صرف اپنا پیٹ پال سکے یا مکان کا کرایہ ادا کیاجاسکے، اور بس۔

مزدوروں کے حالاتِ زندگی

کسان بھی مزدور ہوتے ہیں جو دھرتی کا سینہ چیر کر اناج اگاتے ہیں۔ تعمیرات کے شعبے سے لے کر فیکٹریوں میں پیکنگ کے کام پر لگے ہوئے ہیلپر تک ہر وہ شخص مزدور ہے جسے بچوں کا تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے میسر نہیں۔ کپڑوں کا ایک جوڑا خریدنے کے لیے اسے سو بار سوچنا پڑتا ہے۔ تین وقت کی روٹی کی جگہ 2 وقت سے کام چلانا پڑتا ہے۔

مزدور کے بچے بھی مزدور ہوتے ہیں کیونکہ وہ سرکاری اسکولوں سے تعلیم حاصل کرکے نوکری کرنا سیکھتے ہیں۔ انہیں کاروبار کرنا کوئی نہیں سکھاتا۔ پاکستان میں مزدوروں کا بہت برا حال ہے۔ اسکول جانے والے بچے گھر کی روزی روٹی کیلئے مزدور بنے ہوئے ہیں جنہیں بد ترین استحصال کا سامنا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ سرمایہ دار تو پہلے ہی بدنام ہیں، مفاد پرست مزدور رہنما بھی محنت کشوں کے مفادات پر سودے بازی کرلیتے ہیں اور انہیں سبز باغ دکھا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ یہ تمام تر صورتحال انتہائی مخدوش ہے جس کی اصلاح کیلئے ہمیں سیرتِ نبوی ﷺ سے رہنمائی حاصل کرنا ہوگی۔

سیرتِ نبوی ﷺ سے رہنمائی

حضرت محمد مصطفیٰ کا فرمان ہے کہ : الکاسب حبیب اللہ ، جس کا ترجمہ ہے کہ ہاتھ سے کام کرنے والا (یعنی مزدور) اللہ کا دوست ہوتا ہے۔ ایک شخص نے نبی ﷺ کے پاس آ کر بتایا کہ میں لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرتا ہوں۔ حضور ﷺ نے اس کے ہاتھ چوم لیے۔ مزدور کا درست مقام و مرتبہ ایسی احادیث سے پتہ چلتا ہے۔

دورِ جاہلیت میں مزدوروں سے بد تر انسان بھی موجود تھے جنہیں ہم غلام کے نام سے جانتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اپنے غلاموں کو وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، جو خود پہنتے ہو، انہیں بھی وہی پہناؤ۔ مزدور کو یہ تمام باتیں معلوم نہیں کہ اس کا حق کیا ہے۔ پڑھے لکھے سرمایہ دار یہ تمام باتیں جانتے ہیں۔

اگر آج کا سرمایہ دار صرف اتنا سوچ لے کہ وہ کس نبی ﷺ کی امت میں ہے تو مزدوروں کے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔ اسلام نے سکھایا کہ مزدور کو محنت یا حقدار کو حق سے کم دینا ظلم ہے۔حق کے مطابق دینا انصاف ہے اور حق سے زیادہ دینا احسان ہے جس کے اجر کی امید صرف اللہ تعالیٰ سے کرنی چاہئے۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ : بکریاں اپنے مالکوں کے لئے باعث ِ برکت ہیں۔ اونٹ اپنے مالکوں کے لئے عزت کا باعث ہیں اور گھوڑوں کی تو پیشانیوں میں بھلائی رکھی گئی ہے اور غلام تمہارا بھائی ہے۔ اس سے اچھا سلوک کرو۔ اگر اسے تکلیف میں دیکھو تو اس کی مدد کرو۔

0/Post a Comment/Comments