8 مارچ خواتین کے حقوق کا عالمی دن تحریر اشفاق نیاز

 تحریر /اشفاق نیاز

ہمارے معاشرے میں خواتین کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کی وہ صحیح معنوں میں حقدار ہیں۔ عورت عربی زبان کا لفظ ہے اسے صنف نازک بھی کہاجاتا ہے۔ یو ں توعورت کے بے شمار روپ ہیں اورہر روپ میں وہ منفرد نظر آتی ہے مگر عورت کا جوروپ " ماں "  کی صورت میں ہے  وہ سب سے افضل ترین ہے کیونکہ اسلام نے جو مقام عورت کو بخشا ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں ہے  یہ عورت ہی ہے جس نے پیغمبراسلام،تاجدارِ ختم نبوت حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم کو جنم دے کر دہر میں اسم ِ محمدﷺ سے اُجالا کر دیا۔  یہ عورت ہی ہے جس نے حضرت سیدہ فاطمہۃالزہرہ  ر ضی اللہ تعالیٰ عنہاکے کردار کو تمام دنیا کی خواتین کے لئے رول ماڈل بنا دیا۔ یہ عورت ہی ہے جس نے محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور ٹیپوسلطان جسے بے شمار بہادر بیٹوں کو جنم دے کر اس دھرتی پر احسانِ عظیم کیا  یہ عورت ہی ہے جس نے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ  جسے عظیم سپوتوں کی پرورش کا شرف حاصل کیا۔یہ عورت ہی ہے جس نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے روپ میں


پاکستان کی عورتوں کے حقوق کی وکالت کی۔یہ عورت ہی ہے جس نے بیگم رانا لیاقت علی کے کردار میں عورتوں کے حقوق کی موثر اور بھر پور حمایت کی ۔یہ عورت ہی ہے جس نے محترمہ بے نظیربھٹو شہید کی صورت میں جمہوریت کی آبیاری کی لیکن آج ہمارے معاشرے میں خواتین کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کی وہ صحیح معنوں میں حقدار ہیں۔ ہر سال پوری دنیا میں خواتین کے حقوق کا عالمی دن 8مارچ کو منایا جاتاہے۔ اس روز پاکستان کے ہرچھوٹے اور بڑے ضلع میں مختلف تقاریب کا اہتمام کیاجاتا ہے۔ بہت سے ٹی وی چیلنجز اور اخبارات بھی اس دن کی مناسبت سے مذاکرات کا اہتمام کرتے ہیں اور خواتین کے حقوق پر بات کی جاتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام نے جو حقوق عورتوں کو تفویض کئے ہیں ان کے بعد کسی حقوق  کی بات کرنا  میری سمجھ سے باہر ہے۔ ہاں ان حقوق پر عمل درآمد کروانا  ایک الگ بحث ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سال کے 365 دن تو عورتوں کے حقوق کی بات نہیں کی جاتی لیکن جونہی مارچ کا مہینہ قریب آتا ہے تو عورتوں کو اپنے حقوق یاد آجاتے ہیں۔حالانکہ دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے عورت کو اعزاز دیا اور اُسے برابری کے ساتھ حضرت آدمؑ کے ساتھ جنت میں رکھا  " پھرہم نے آدم ؑ سے کہا کہ تم اور تمہای بیوی جنت میں رہو "(البقرہ)یہاں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو برابری کے حقوق دئیے مگر آ ج مغرب انسانوں  کے بنائے  ہوئے قانون کے تحت عورتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے۔رب کریم نے خود قر آن مجید میں شروع ہی سے عورتوں کے حقوق کا حکم دے دیا تھا۔جسے دنیا کی کوئی طاقت سلب نہیں کر سکتی۔ اگر ہم بحثیت مسلمان قرآن  کا ترجمہ ہی پڑھ لیں تو یہی ہمارے حقوق کی جنگ میں معاون ثابت ہو گا۔  جب ہم عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو عورتوں کے حقوق سے مراد وہ حقوق ہیں۔ " جو عورتوں کی وہی قانونی اور سماجی مقام دلائیں جو مردوں کی حاصل ہوں ۔ "  اب اگر ہم مغربی معاشرے کی بات کریں۔ تو وہ تمام کا تما م تر معاشرہ اسلامی عورت کو فرسودہ اورکم سوچ کی مالک قرار دیتاہے جبکہ ایسا کچھ نہیں ہے۔مغربی معاشرے نے تو خود عورت کی جدید یت کو مذاق بنا کے رکھ دیا ہے ا ور برابر اس کے جذبات سے کھیل رہا ہے۔ آج کی عورت اس کے اشاروں پرنا چتے ہوئے اپنی شرم وحیا سے عاری ہو چکی ہے اور دوسروں کی نقالی کرتے ہوئے خود اپنا اصل وجود کھو بیٹھی ہے۔ آرٹ اورکلچر کے پردے میں اس سے وہ سب کچھ کروایا جا رہا ہے جواسے زیب نہیں دیتا۔ کیا یہی ہمارا معاشرہ ہے؟ اورکیااسلام اس بات کی تلقین کرتا ہے آج اگر ہم اپنی آنکھوں سے تنگ نظر ی اور تعصب کی پٹی ہٹا کردیکھیں توہمیں معلوم ہو گا کہ اسلام آپ کو بحثیت ایک عورت وہ حقوق دیتا ہے کہ آپ کو ہر رشتے کے حوالے سے خود پرناز ہو گا۔ دنیا میں اسلام واحد مذہب ہے جو عورت کو صرف خاندان یا معاشرے تک محدود نہیں رکھتا بلکہ اہلیت کی بنیاد  پر ریاستی سطح پر بھی کردار ادا کرنے کے قابل بناتا ہے۔ قرآن حکیم میں مسلم معاشرے میں ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے مردوخواتین دونوں کو برابر کی اہمیت دیتاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے اور اہل ایمان مرد اور اہل ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ومددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بُری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت بجا لاتے ہیں۔ ان لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا بے شک اللہ بڑاغالب  اوربڑی حکمت والا ہے۔ جب ہم عالمی سطح پر خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو 8مارچ کو منایا جانے والا دن بلاشبہ ان کے احترام اور حقوق کو تقویت بخشتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ہماری زندگی میں عورت کے حقوق کے تحفظ کو یقینی  بنانا، اپنے ثقافتی رسم ورواج کے سانچے میں ڈھالتے ہوئے خواتین کو عزت واحترام دینا۔ان کو زندگی میں تگ ودو کا حوصلہ دینا اور کا میابیوں کو تسلیم کرنا ہے۔ خواتین کا عالمی دن دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ  1908ء میں خواتین کی تحریک کی داستان شروع ہوئی تھی۔ نیویارک کی ایک گارمنٹس کی فیکٹری میں مسلسل دس گھنٹے کام کرنے والی خواتین نے اوقات کار میں کمی؛مساوی حقوق، ورکرز کی بہبود اور اُجرت کے لئے آواز اٹھائی تھی۔ہڑتال اور مارچ کرنے پرپولیس نے تشدد کیااورخواتین کو گھوڑوں سے باندھ کر گھسیٹا۔بد ترین تشدد کے باوجود خواتین نے جبری مشقت کے خلاف تحریک جاری رکھی  یہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے پہلی سیاسی کوشش اور جدوجہد تھی۔ ایک اخباری فورم کے تحت بہت سی خواتین نے بھی اس بات کا اظہار کیا ہے کہ "سیمینار اور اجلاس،مذاکرات اور گفتگوجس قدر بھی کر لی جائے لیکن جن قوتوں نے ہماری آوازسن کر عمل درآمد کرنا ہے وہ مرد حضرات ہیں۔ وہ کبھی نہیں چاہتے کہ عورتیں ان کے برابر آجائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود ہمیں اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا ہو گی۔ خواتین کا اپنے حقوق کے حوالے سے یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستانی خواتین اپنے حقوق کے حوالے سے بہت پیچھے ہیں۔ ہر دن عورت کے حقوق کا دن ہونا چاہیئے۔ کیونکہ عورت ہی گھروں کو سنوارتی ہے۔ معاشرے کو بناتی ہے۔ وحدت کو بکھرنے نہیں دیتی۔ اپنے بچوں اور گھر کی سلامتی کے لیے بہت سارے کمپرومائز کرتی ہے۔ کولہو کے بیل کی طرح ساراسارا دن گھر میں کام کاج کرتی ہے۔معاشرے کو بنانے میں عورت کا بہت بڑا عمل دخل ہے لیکن معاشرے نے وہ حقو ق اسے نہیں دئیے  جس کی وہ حقدار ہیں۔وطن عزیز کو قائم ہوئے 74 سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔ حکومتیں آتی اور جاتی رہی ہیں لیکن بد قسمتی سے خواتین کے حقوق پر موثر قانون سازی نہیں کی سکی۔ پاکستان بھر میں خواتین کی اکثریت اپنے حقوق سے ناآشنا ہے۔ 73ء کے آئین میں غیرت کے نام پر قتل اور خواتین پر جنسی تشدد کو روکنے کی پہلی کوشش 43 سال بعد کامیاب ہوسکی۔ پیپلز پارٹی نے 2014ء میں غیرت کے نام پر قتل  اور جنسی زیادتی کی روک تھام کے بارے میں ایک بل پیش کیا تھا جس پر مسلم لیگ (ن) نے اتفاق کیا تھا تاہم مذہبی حلقوں کے اعتراض کے باعث دوسال تک التواء کا شکات رہا آخر 2016ء میں اتفاق رائے سے بل منظورہو ا۔  موجودہ حکومت کو خواتین کے حقوق کے لیئے بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔آج بھی آئے روز خواتین کے حقوق کی پامالی کی خبریں تسلسل کے ساتھ پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں جو ہمارے دین اسلام کے منافی ہیں۔ آج ہمیں کھلے دل سے خواتین کے مقام اور اہمیت کیوتسلیم کرنا ہو گا  کیونکہ آج کی عورت نے اپنی صلاحیت سے ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں اور ثابت کیا ہے وہ مردوں سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ ہمیں ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا ہوگا۔ ہمیں ان تمام فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑا پھینکنا ہو گا جو جاہلانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ 8مارچ کا دن اسی بات کا متقاضی ہے اور ہمیں ہر صورت خواتین کو وہ مقام دینا ہو گا جس کی وہ حق دار ہیں۔

0/Post a Comment/Comments